توہین رسالت: مغربی دنیا کا مسئلہ کیا ہے؟

توہینِ رسالتؐ مغربی دنیا میں کبھی برسوں میں رونما ہونے والا واقعہ تھا مگر اہلِ مغرب نے اسے ’’معمول‘‘ بنادیا ہے۔ اہلِ مغرب کبھی توہینِ رسالتؐ ’’علم‘‘ کی آڑ میں کیا کرتے تھے، مگر اب یہاں یہ بھیانک کام ’’فلم‘‘ کی اوٹ میں ہورہا ہے۔ اس طرح اہلِ مغرب نے توہینِ رسالتؐ کے سلسلے میں اپنے علم اور فلم کو ایک کردیا ہے۔ فلم بنیادی طور پر تفریح کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اہلِ مغرب کے لیے اب توہینِ رسالتؐ ایک ’’تفریح‘‘ بن گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے حوالے سے مغرب کا مسئلہ کیا ہے؟


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں ہی نہیں ہندوئوں اور بدھسٹوں کے یہاں بھی موجود ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اندازہ تھا کہ اب خاتم النبیین کا ظہور ہونے ہی والا ہے۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہم نے ’’دعائے خلیل‘‘ اور ’’نویدِ مسیحا‘‘ کا زمانہ پایہ تو ہم نہ صرف یہ کہ ان پر ایمان لائیں گے بلکہ ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں کے خلاف جہاد کریں گے۔ لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو صرف کافروں اور مشرکوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کیا بلکہ یہودی اور عیسائی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہیں پائے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں بہت سوں کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خاتم النبیین ہیں، مگر ان کو اعتراض تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں کیوں مبعوث نہیں ہوئے، بنی اسمٰعیل میں کیوں مبعوث ہوئے۔ غور کیا جائے تو یہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہ تھی، یہ روش اختیار کرکے یہودی اور عیسائی اللہ تعالیٰ پر بھی اعتراض کررہے تھے۔ وہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ نے غلط فیصلہ کیا ہے۔ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسمٰعیل میں پیدا کردیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے سلسلے میں یہودیوں اور عیسائیوں کا معاملہ جہل، ضد اور ہٹ دھرمی کا تھا۔ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک طبقہ اس جہل، ضد اور ہٹ دھرمی کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔
,

Leave a Reply