سیرتِ طیبہؐ اور مسلمانوں کی دنیا پرست

ہمارے لیے ان تمام بصیرتوں کی اہمیت یہ ہے کہ دین ہماری ’’محبت‘‘ ہے اور دنیا ہماری ’’ضرورت‘‘ ہے۔ مگر امتِ مسلمہ نے اس اصول کو الٹ دیا ہے۔ چنانچہ دنیا ہماری ’’محبت‘‘ بن گئی ہے اور دین کو ہم صرف ’’بقدرِ ضرورت‘‘ اختیار کیے ہوئے ہیں

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غایت درجے کی عقیدت ہو۔ دوسرا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غایت درجے کی محبت ہو۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے۔ مسلمانوں پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ کمزور سے کمزور مسلمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں نثار بنایا ہوا ہے۔ چنانچہ معمولی سے معمولی مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت میں جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔ جس طرح عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہے اسی طرح محبت کا تقاضا اتباع ہے۔ زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اُس جیسا بننے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان کہتے تو ہیں کہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی زندگی سے اس امر کی ٹھوس شہادت میسر نہیں آتی کہ مسلمانوں کو واقعتاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع سے بہت دور کھڑی ہے۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک لمحے میں جان دے سکتے ہیں، مگر خود کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ آپؐ کی ذاتِ پاک ہماری زندگی کا محور ہے۔ کلمۂ طیبہ کے دو حصے ہیں۔ ایک لاالٰہ الااللہ، اور دوسرا محمد رسول اللہ۔ اگر کوئی شخص پہلے حصے پر تو ایمان لائے مگر کلمۂ طیبہ کے دوسرے حصے پر ایمان نہ لائے تو اُس کا ایمان خدا کے ہاں قابلِ قبول نہیں۔ اذان اللہ کی کبریائی کا اعلان بھی ہے اور اللہ سے ملاقات کی دعوت بھی… لیکن اگر اذان سے اشہدوان محمد رسول اللہ کو منہا کردیا جائے تو اذان نامکمل ہوجائے گی اور اذان نہیں رہے گی۔ نماز عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لیے ہے، لیکن اگر نماز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجا جائے تو نماز، نماز نہیں رہے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک مسلمان کی زندگی اتنی ہی ’’مستند‘‘ ہے جتنی وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ سے ہم آہنگ ہے۔ اور ہماری زندگی اتنی ہی ’’غیر مستند‘‘ ہے جتنی وہ اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ سے دور ہے۔ بلاشبہ ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت کی پیروی لازم ہے، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض سنتیں بعض دوسری سنتوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے بعض سنتیں ایسی ہیں جن کے اتباع کے بغیر ہماری زندگی میں کوئی معنویت اور کوئی حسن و جمال ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کی ایک بہت ہی بڑی مثال دنیا کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت ہے۔
قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو متاع الغرور یعنی دھوکے کی ٹٹّی یا Smoke Screen قرار دیا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ ہم نے بعض اہلِ دنیا کو دنیا دی ہے مگر آپؐ اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ سیرتِ طیبہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپؐ نے جنگلوں میں جاکر دنیا کو ترک نہیں کیا، بلکہ آپؐ نے دنیا میں رہ کر دنیا کو ترک کیا۔ آپؐ نے اللہ کی محبت اور قرآن کے احکامات کی روشنی میں دنیا کی اتنی اور ایسی مذمت فرمائی کہ دنیا کی کسی دوسری مذہبی روایت میں شاید ہی اس کی کوئی مثال موجود ہو۔ ابن ماجہ کی بیان کردہ ایک حدیث کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مُردہ بکری کے پاس سے گزرے تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا: تمہارے خیال میں یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک ذلیل ہے یا نہیں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ذلیل ہے اسی لیے تو اس کے مالک نے اسے پھینک دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر ہے۔ اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ ملتا۔

ایک اور حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ (بخاری و مسلم)
ایک اور جگہ آپؐ کا ارشاد ہے:
’’دُنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے بجز اس کے جو اللہ کے لیے ہو‘‘۔ (ترمذی)
ایک حدیث شریف کے مطابق آپؐ نے فرمایا:
’’جو اپنی دُنیا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے، اور جو اپنی آخرت سے محبت رکھتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے‘‘۔ (طبرانی)
آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
’’دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے‘‘۔ (بیہقی)
ایک حدیث شریف کے مطابق آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے دنیا سے زیادہ مبغوض کوئی دوسری مخلوق پیدا نہیں کی۔ جب سے اسے پیدا کیا اس کی طرف نظر نہیں فرمائی‘‘۔
آپؐ کا ارشاد ہے:
’’دنیا اُس کا گھر ہے جس کے پاس گھر نہ ہو۔ اُس کا مال ہے جس کے پاس مال نہ ہو۔ دنیا کے لیے وہ جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو۔ اور دنیا پر وہ جھگڑتا ہے جس کو علم نہ ہو۔ اور اس پر وہ حسد کرتا ہے جس کو سمجھ نہ ہو۔ اور اس کے لیے وہ کوشاں رہتا ہے جس کو یقین نہ ہو‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:
’’قیامت کے دن کچھ لوگ آئیں گے جن کے اعمال وادیٔ تہامہ کے پہاڑوں جیسے ہوں گے۔ انہیں دوزخ میں لے جانے کا حکم ہوگا‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ کیا وہ نماز پڑھنے والے ہوں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں وہ نماز پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، رات کا کچھ حصہ جاگ کر بھی گزارتے تھے، لیکن اُن میں یہ بات تھی کہ جب اُن کے سامنے دنیا کی کوئی چیز پیش کی جاتی تھی تو وہ اس پر کود پڑتے تھے‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث شریف میں فرمایا:’’دنیا سے بچو، کیونکہ وہ ہاروت اور ماروت سے بھی زیادہ جادوگر ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
’’میرے بعد ایک ایسی دنیا آئے گی جو تمہارے ایمان کو اس طرح کھا جائے گی جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے‘‘۔
(احیاء العلوم۔ از امام غزالیؒ۔ جلد 3، صفحہ 325)
امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں حضرت موسیٰؑ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ حضرت موسیٰؑ پر وحی نازل ہوئی کہ: اے موسیٰؑ دنیا سے محبت نہ کرنا ورنہ اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں۔ حضرت موسیٰؑ ایک بار ایک شخص کے پاس سے گزرے۔ وہ شخص رو رہا تھا۔ حضرت موسیٰؑ واپس ہوئے تب بھی اس شخص کو روتے ہوئے پایا۔ حضرت موسیٰؑ نے عرض کیا: تیرا یہ بندہ خوف سے رو رہا ہے۔ وحی آئی کہ ابن عمران اگر یہ شخص آنسوئوں کے ساتھ اپنا مغز بھی بہادے یا اتنی دیر ہاتھ اٹھائے رکھے کہ اس کی کمر شل ہوجائے تب بھی میں اس کی مغفرت نہیں کروں گا کیونکہ یہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہے۔
ہمارے لیے ان تمام بصیرتوں کی اہمیت یہ ہے کہ دین ہماری ’’محبت‘‘ ہے اور دنیا ہماری ’’ضرورت‘‘ ہے۔ مگر امتِ مسلمہ نے اس اصول کو الٹ دیا ہے۔ چنانچہ دنیا ہماری ’’محبت‘‘ بن گئی ہے اور دین کو ہم صرف ’’بقدرِ ضرورت‘‘ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت سیرتِ طیبہ سے انحراف کی نہیں اس کے خلاف بغاوت کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس کے باوجود کروڑوں مسلمان معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں پر نکبت و ادبار اور ذلت و خواری کیوں مسلط ہے؟

بعض لوگ دنیا کو صرف مال و دولت سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ مال و دولت کی محبت بھی دنیا پرستی ہے، مگر دنیا پرستی صرف مال و دولت کی محبت تک محدود نہیں۔ مسلمانوں میں کروڑوں لوگ ’’طاقت پرست‘‘ ہیں، اور یہ بھی دنیا پرستی کی ایک صورت ہے۔ کروڑوں لوگ عہدہ و مناصب کے لیے مرے جاتے ہیں، اور یہ بھی دنیا پرستی کی ایک شکل ہے۔ کروڑوں لوگ شہرت کی تمنا میں مبتلا ہیں، اور یہ بھی دنیا پرستی کی ایک صورت ہے۔ لاکھوں لوگوں کو اپنے نام و نسب پر فخر ہے، اور یہ بھی دنیا پرستی کا ایک پہلو ہے۔ کروڑوں لوگ اَنا پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں، اور ان کی انائوں کا دنیا کی محبت سے گہرا تعلق ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ اس وقت مسلم دنیا کے دو حصے ہیں۔ ایک جو مال دار مسلمانوں کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے مال کی کثرت فتنہ بن گئی ہے۔ عرب شہزادوں کی عیش پرستی کو دیکھ کر ایک بار شاہ فیصل نے فرمایا تھا کہ ہماری گزشتہ نسلیں اونٹوں پر سفر کرتی تھیں، ہماری موجودہ نسلیں جس طرح مال خرچ کررہی ہیں اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اونٹوں پر سفر کریں گی۔ سعودی عرب مسلم دنیا کا مالدار ترین ملک ہے اور ولی عہد محمد بن سلمان نے کچھ عرصہ قبل فرمایا تھا کہ وہ آئندہ دس برسوں میں سعودی عرب میں تفریحی سرگرمیوں کے فروغ پر 62 ارب ڈالر خرچ کریں گے۔ دوسری طرف مسلمانوں کا وہ طبقہ ہے جو مال کی قلت میں مبتلا ہے اور مال کی قلت اس کے لیے ایک فتنہ بن گئی ہے۔ اس طبقے کی ’’زندگی‘‘ دولت ہے، اس طبقے کا ’’خواب‘‘ دولت ہے، اس طبقے کی ’’قدر‘‘ دولت ہے۔ یہ طبقہ کسی نہ کسی طرح دنیا کمانا چاہتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف افراد کا بھی نہیں ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں، حکومتوں اور ریاستوں نے مغرب سے مادی ترقی کا ماڈل مستعار لے لیا ہے۔ چنانچہ کوئی اپنے ملک کو جاپان بنانا چاہتا ہے، کوئی جنوبی کوریا بنانا چاہتا ہے، کوئی یورپ بنانا چاہتا ہے، کوئی امریکہ بنانا چاہتا ہے۔ ایک مسلم ملک بھی ایسا نہیں جو اپنے ملک اور قوم کی تعمیر کے سلسلے میں سیرتِ طیبہ کی طرف دیکھتا ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تخلیق کیے ہوئے معاشرے کی طرف دیکھتا ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ کی طرف دیکھتا ہو۔ عربی ضرب المثل ہے کہ معاشرہ ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں کے اہلِ سیاست ہی نہیں مسلم معاشروں کے علما اور دانش ور بھی دنیا پرستی میں مبتلا ہیں۔ مسلم دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں علماء اور دانش ور حکمرانوں کے آلہ کار کا کردار ادا نہیں کررہے؟ مسلم دنیا کا کون سا ملک ہے جس کے علماء اور دانش ور پُرتعیش زندگی کے تمنائی نہیں؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنتوں میں سے ایک عظیم سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خودنمائی سے گریز تھا۔ مکی زندگی کے آغاز میں جب مکہ سے باہر آپؐ بہت کم پہچانے جاتے تھے اکثر یہ ہوتا تھا کہ آپؐ صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوتے تھے اور کوئی آپؐ سے ملنے آجاتا تھا اور آپؐ کو پہچان نہیں پاتا تھا۔ چنانچہ وہ صحابہ میں سے کسی کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر بات کرنے لگتا تھا۔ صحابہ اس بات پر شرمندہ ہوجاتے۔ چنانچہ صحابہ نے ازخود طے کیا کہ جب کوئی انجان آدمی آپؐ سے ملنے آئے گا تو وہ آپؐ کے پاس سے اٹھ جائیں گے تاکہ آنے والے شخص کی نظر فوراً آپؐ پر پڑ جائے اور وہ آپؐ کو پہچان لے۔ مگر ہمارے سیاست دان، ہمارے علماء، ہمارے دانش ور، ہمارے شاعر اور ہمارے ادیب شہرت کے ہیضے میں مبتلا ہیں۔ کسی کو اخبار کے صفحے پر نظر آنے کا شوق ہے، کوئی ٹیلی ویژن کی اسکرین کے عشق میں مبتلا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا خدا ایسے لوگوں کا ’’مددگار‘‘ ہوگا؟ مزید سوال یہ ہے کہ جب خدا ہی ہمارا مددگار نہیں ہوگا تو پھر ہم دنیا اور آخرت میں کس طرح کامیاب ہوں گے؟ دنیا پرستی اتنا بڑا روحانی مرض ہے کہ اگر اسے ’’روحانی سرطان‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس اعتبار سے ہمارے مذہبی رہنمائوں، علما، دانش وروں اور صحافیوں کو اس کے خلاف جہاد کرنا چاہیے تھا۔ مگر جب حکمران، سیاست دان، علما، دانش ور اور صحافی خود اس مرض میں مبتلا ہیں تو یہ جہاد کس طرح برپا ہوگا؟

ہمارا دین کہتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں فضیلت دو ہی چیزوں کو حاصل ہے۔ ایک تقویٰ کو اور دوسری علم کو۔ مگر کسی مسلم معاشرے میں تقویٰ اور علم کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ ڈیڑھ سو سال پہلے اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:

نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے

آج مسلم معاشروں کی صورتِ حال اکبر کے زمانے کی صورتِ حال سے زیادہ ابتر ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے دین اور دنیا کا امتیاز موجود تھا، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے دنیا ہی ہمارا دین بن گئی ہے، اس لیے کہ ہم نے دنیا کے ساتھ وہی عظمت، تقدیس اور والہانہ پن وابستہ کرلیا ہے جو کبھی صرف دین کا حق اور حصہ تھا۔ بدقسمتی سے ہماری ظاہری دین داری ہماری دنیا پرستی کا پردہ بن گئی ہے۔ چنانچہ ہم نہ اپنی ہولناک روحانی بیماری پر مطلع ہیں، نہ ہم اس کے علاج کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ بیماری کا علاج وہی کرتا ہے جو اپنا بیمار ہونا تسلیم کرتا ہے۔

غز ل

شاہنواز فاروقی

ہر ایک دل کے لیے ریگزار ہے دنیا
عزیز راہ نہیں ہے غبار ہے دنیا
دکھا چکا ہے مجھے میرے دل کا آئینہ
نگارِ مرگ کا سولہ سنگھار ہے دنیا
محاصرہ ہے اَنا کا، ہوس کا، پستی کا
نہ جانے کس نے کہا ہے حصار ہے دنیا
نگاہ ہو تو خزاں ہی خزاں ہے چاروں طرف
نظر نہ ہو تو چمن ہے ،بہار ہے دنیا
کسے خبر ہے یہاں زندگی کے دھوکے میں
ہر اک بشر کو اجل کی پکار ہے دنیا
ہر اک مقام سے اس کا جدا تعلق ہے
بدن پہ پھول ہے اور دل میں خار ہے دنیا
کھڑی ہوئی ہے مصلّے پہ با وضو ہو کر
برے ہوں دن تو عبادت گزار ہے دنیا
جہاں بھی دیکھا ہے سیّد بنا ہوا دیکھا
اگرچہ ذات سے اپنی چمار ہے دنیا
ترے وطن کا فسانہ ہے کیا، سنا مجھ کو
مرے وطن میں سمندر کے پار ہے دنیا
کسی کسی کو تو مرّیخ پر نظر آئی
زمیں سے تا بہ فلک استوار ہے دنیا
کہیں کہیں پہ تو امّید ہے فقط امّید
اس حال میں بھی دلوں کا قرار ہے دنیا
وہ لوگ جن کو بھروسا نہیں خدا پر بھی
خود اُن کے واسطے اک اعتبار ہے دنیا
چھپی ہوئی ہے کئی عشق کے فسانوں میں
تری نگاہ میں گو کاروبار ہے دنیا
کہیں ہنسی، کہیں دیوانگی، کہیں آنسو
بڑے کمال کی منظر نگار ہے دنیا
خبر ملی ہے مدرسوں سے خانقاہوں سے
رواروی میں سہی بردبار ہے دنیا
کوئی کمی نہ ہوئی اس کے حُسن و خوبی میں
کئی برس سے اگرچہ ادھار ہے دنیا
کسی سِڑی کسی مجنون نے کہا ہو گا
تھکا دیا ہے مجھے، مجھ پہ بار ہے دنیا
دعا کے بعد، دعا میں، دعا سے پہلے بھی
بس ایک بار نہیں بار بار ہے دنیا
چلا گیا میں سرِ شام کچھ مزاروں پر
پتا چلا کہ بہت سوگوار ہے دنیا
طوافِ کوچۂ مغرب سے کچھ نہیں ہوتا
کہ اپنی روح کے اندر گنوار ہے دنیا
مرے عزیز کلفٹن ہو یا لیاری ہو
ہر اک مقام پہ انساں کی ہار ہے دنیا
کہیں کہیں پہ ہے سیف و قلم کا افسانہ
کہیں کہیں پہ بڑی با وقار ہے دنیا
کبھی بھی روح کو سیراب کر نہیں سکتی
او کم نگاہ طوائف کا پیار ہے دنیا
دکھائی دی ہے کئی صوفیوں کے حلقوں میں
کہیں کہیں پہ بہت دین دار ہے دنیا
یہ حاضری تو نہیں سیر ہے مدینے کی
تضادِ فکر و عمل کا شکار ہے دنیا
لکھا ہوا ہے یہ شاعر تھے اور عالم بھی
غضب خدا کا کہ لوحِ مزار ہے دنیا
یہ اور بات کوئی مانتا نہیں لیکن
کسی کسی کی تو پروردگار ہے دنیا

مطالعہ سیرت کا مقصد

(مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قلمِ حق رقم سے)
اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک اللہ کا کلام، دوسرے انبیاء علیہم السلام کی شخصیتیں، جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ و تعلیم اور تفہیم کا واسطہ بنایا، بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا، تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشاء پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیرِ صالح کر دکھائیں۔یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے ایسی لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے نہ انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہوسکا، اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔ کتاب کو نبی سے الگ کردیجیے تو وہ ایک کشتی ہے ناخدا کے بغیر، جسے لے کر اناڑی مسافر زندگی کے سمندر میں خواہ کتنے ہی بھٹکتے پھریں منزلِ مقصود پر کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ اور نبی کو کتاب سے الگ کردیجیے تو خدا کا راستہ پانے کے بجائے آدمی ناخدا ہی کو خدا بنا بیٹھنے سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ یہ دونوں ہی نتیجے پچھلی قومیں دیکھ چکی ہیں۔ یہودیوں نے اپنے انبیاء کی سیرتوں کو گم کیا اور صرف کتابیں لے کر بیٹھ گئے۔ انجام یہ ہوا کہ کتابیں اُن کے لیے لفظی گورکھ دھندوں سے بڑھ کر کچھ نہ رہیں۔ حتیٰ کہ آخرکار خود انہیں بھی وہ گم کر بیٹھے۔ عیسائیوں نے کتاب کو نظرانداز کرکے نبی کا دامن پکڑا، اور اس کی شخصیت کے گرد گھومنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی چیز انہیں نبی اللہ کو ابن اللہ بلکہ عین اللہ بنانے سے باز نہ رکھ سکی۔
پرانے ادوار کی طرح اب اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمتِ اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں جو ازل سے چلے آرہے ہیں۔ ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن پاک کی صورت ہی میں مل سکتا ہے، دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہوسکتا ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا اُس نے اسلام کو سمجھا۔ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجۂ ہدایت سے بھی۔
پھر قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم دونوں چوں کہ ایک مشن رکھتے ہیں، ایک مقصد و مدعا کو لیے ہوئے آئے ہیں، اس لیے ان کو سمجھنے کا انحصار اس پر ہے کہ ہم ان کے مشن اور مقصد و مدعا کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے دیکھیے تو قرآن عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرتِ پاک واقعات و حوادث کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ لغت اور روایات اور علمی تحقیق و کاوش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگاسکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا کمال دکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپؐ کے عہد کے متعلق صحیح ترین اور وسیع ترین معلومات کے ڈھیر لگا سکتے ہیں، مگر روحِ دین تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ وہ عبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جس کے لیے قرآن اُتارا گیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی علم برداری کے لیے کھڑا کیا گیا۔ اصل مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا، اتنا ہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح، اور جتنا وہ ناقص ہوگا، اتنا ہی ان دونوں کا فہم ناقص رہے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور سیرتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام دونوں ہی بحرِ ناپیدا کنار ہیں۔ کوئی انسان یہ چاہے کہ ان کے تمام معانی اور فوائد و برکات کا احاطہ کرے تو اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ البتہ جس چیز کی کوشش کی جاسکتی ہے وہ بس یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو آدمی ان کا زیادہ سے زیادہ صحیح فہم حاصل کرے اور ان کی مدد سے روحِ دین تک رسائی پائے۔

Leave a Reply