سیاسی بحران کا تقاضا، چہرے نہیں نظام کوبدلو

اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ دن سے مولانا کا مارچ اور مولانا کا دھرنا حقیقی مارچ اور حقیقی دھرنا نہیں ہے بلکہ وہ صرف مارچ اور دھرنے کی ’’دھمکی‘‘ ہے۔ مگر ہمارے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن نے مارچ اور دھرنے کی ’’دھمکی‘‘ کو بھی ’’حقیقی مارچ‘‘ اور ’’حقیقی دھرنے‘‘ کے برابر تباہ کن بنادیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ’’نزلہ‘‘ مریض کے اعصاب پر ’’سرطان‘‘ کا اثر مرتب کرے

انسان کی صحت اچھی ہوتی ہے تو اس کی قوتِ مزاحمت بھی عمدہ ہوتی ہے، چنانچہ پھر اس کا جسم بڑی سے بڑی بیماری کے جراثیم سے بھی مقابلہ کرلیتا ہے۔ آدمی کی صحت اچھی نہ ہو تو پھر نزلے، زکام سے شروع ہونے والی بیماری بھی اسے بسترِ مرگ تک پہنچا دیتی ہے۔ بظاہر دیکھا جائے تو پاکستان کا سیاسی نظام بڑا مستحکم اور توانا ہے، مگر اس کی ’’اوقات‘‘ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے مارچ اور دھرنے کے اعلان نے ملک کی سیاست کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ میاں نوازشریف چاہتے ہیں کہ مارچ اور دھرنا زوردار ہو۔ میاں شہبازشریف چاہتے ہیں کہ مارچ اور دھرنا نہ ہو تو اچھا ہے۔ میاں نوازشریف کے دبائو نے شہبازشریف کو مارچ گود لینے پر مجبور کیا تو انہوں نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ مارچ میں نواز لیگ اتنا ہی شامل ہوگی جتنا پیپلزپارٹی شامل ہوگی۔ بلاول مارچ یا دھرنے میں شریک ہوں گے تو شہبازشریف بھی مارچ اور دھرنے میں شامل ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت مارچ اور دھرنے میں شریک ہوگی تو نواز لیگ بھی مارچ اور دھرنے میں دوسرے درجے کی قیادت کو بھیجے گی۔
مارچ اور دھرنے کے اعلان نے عمران خان کی حکومت کو بوکھلا دیا ہے۔ عمران خان ایک جانب مذاکرات کے لیے کمیٹی کا اعلان کرتے ہیں، دوسری جانب مولانا فضل الرحمن پر مولانا ڈیزل کی پھبتی کستے ہیں۔ ان کے کچھ وزیر کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو مارچ اور دھرنے پر کوئی اعتراض نہیں، مگر خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ فرما رہے ہیں کہ وہ مولانا کو خیبر پختون خوا سے نکل کر اسلام آباد کی جانب جانے ہی نہیں دیں گے۔ پیپلزپارٹی ایک دن کہتی ہے کہ ہم مارچ کی صرف اخلاقی حمایت کریں گے۔ دوسرے دن کہتی ہے کہ پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہے۔ ذرائع ابلاغ کا یہ عالم ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر جیسے بڑے مسئلے کو پھلانگ کر کھڑے ہوگئے ہیں اور صرف ممکنہ مارچ اور ممکنہ دھرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ دن سے مولانا کا مارچ اور مولانا کا دھرنا حقیقی مارچ اور حقیقی دھرنا نہیں ہے بلکہ وہ صرف مارچ اور دھرنے کی ’’دھمکی‘‘ ہے۔ مگر ہمارے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن نے مارچ اور دھرنے کی ’’دھمکی‘‘ کو بھی ’’حقیقی مارچ‘‘ اور ’’حقیقی دھرنے‘‘ کے برابر تباہ کن بنادیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ’’نزلہ‘‘ مریض کے اعصاب پر ’’سرطان‘‘ کا اثر مرتب کرے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ ’’سیاسی چہروں‘‘ کی تبدیلی کے ذریعے ’’نظام کی تبدیلی‘‘ کا تاثر پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ مگر چہروں کی تبدیلی نظام کی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں نظام تبدیل ہونے سے چہرے تبدیل نہیں ہوتے بلکہ چہرے تبدیل ہونے سے نظام بدلتا ہے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تھا تو یہ نظام کی تبدیلی نہیں تھی صرف چہرے کی تبدیلی تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو 1971ء میں ملک دولخت نہ ہوتا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس بات کا اظہار تھی کہ چہروں کی تبدیلی نے ملک اور معاشرے میں کوئی ایسا تغیر پیدا نہیں کیا جس کو نظام کی تبدیلی کا نام دیا جاسکے۔ لوگ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل پرویزمشرف کو الگ الگ شخصیتیں سمجھتے ہیں، مگر یہ ایک بہت سطحی خیال ہے۔ جنرل ایوب کا سیکولرازم، جنرل ضیا الحق کا اسلام، اور جنرل پرویز کا لبرل ازم ایک ثانوی چیز تھی۔ اصل چیز تھی ان جنرلوں کے شخصی اور اداراتی غلبے کی خواہش۔ چنانچہ یہ جرنیل دراصل ایک ہی شخصیت کے مختلف ناموں کے سوا کچھ نہیں۔ بدقسمتی سے نام نہاد سیاسی رہنمائوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کے آنے سے بھی نظام نہیں بدلا، صرف چہرے بدلے۔ بھٹوصاحب کا نعرہ تھا: اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ مگر بھٹو صاحب کا نہ اسلام سے کوئی تعلق تھا، نہ اُن کی شخصیت کی جڑیں سوشلسٹ نظریات میں پیوست تھیں، اور نہ ان کی سیاست کا جمہوریت سے کوئی واسطہ تھا۔ وہ اول و آخر ایک جاگیردار، ایک وڈیرے اور ایک ’’سول آمر‘‘ تھے۔ میاں نوازشریف کو شہری تمدن اور کاروباری ذہنیت کی علامت کے طور پر ابھارا گیا۔ مگر میاں نوازشریف اور اُن کے خاندان کے ساتھ تہذیب اور تمدن کا لفظ استعمال کرنا بھی تہذیب اور تمدن کی توہین ہے۔ رہا میاں نوازشریف کا کاروبار، تو اس پر بدعنوانی کے اتنے گہرے سائے ہیں کہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ میاں صاحب بدعنوانی کا کاروبار کرتے ہیں یا کاروبار میں بدعنوانی کرتے ہیں؟ بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی اگر بھٹو خاندان کا رومال ہے، تو نواز لیگ شریف خاندان کا جوتا ہے۔ ہماری سیاست میں اس بات کا تذکرہ بھی اکثر ہوا ہے کہ ملک کے مسئلے کا حل متوسط طبقے کی سیاست اور حکومت ہے۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے جرائم پیشہ عناصر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر ابھرے تھے، مگر ایک سال ہوگیا ہے اور عمران خان کی آمد صرف چہرے کی تبدیلی ہے۔ انہیں نظام کی تبدیلی کی ہوا بھی نہیں لگی۔ وہ نظام کی تبدیلی کی طرف جاسکتے تھے، مگر انہوں نے سرمائے اور Electable کی سیاست کو گلے سے لگا کر نظام کی تبدیلی کے سلسلے میں اپنی اہلیت کو پھانسی دے دی۔ مولانا فضل الرحمن کے مارچ اور دھرنے کی سیاست کا سب سے افسوسناک اور المناک پہلو یہ ہے کہ مولانا Status Quo کی سیاست کو گھی شکر کھلا کر تگڑا بنارہے ہیں۔ وہ نظام کے بجائے چہروں کی تبدیلی کی سیاست کو ایک نئی زندگی دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی سیاست کو پھر سے مارشل لا، نوازشریف، نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے کھونٹے سے باندھنے کے لیے ’’جہاد‘‘ فرما رہے ہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقے کے لیے چہروں کی تبدیلی ایک ’’کھیل‘‘ ہے، مگر انہوں نے چہروں کی تبدیلی کو پاکستانی قوم کا ’’سیاسی نشہ‘‘ بنادیا ہے۔ کسی کو جرنیلوں کا نشہ ہے، کسی کو بھٹو خاندان کا نشہ ہے، کسی کو شریفوں کا نشہ ہے اور کسی کو عمران خان کا نشہ ہے۔ اس نشے کا سب سے ہولناک نتیجہ یہ ہے کہ لوگ نظام اور اُس کی تبدیلی کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ انہیں لگتا ہے نوازشریف ہی نظام ہے، عمران خان ہی سسٹم ہے۔ اس نشے کی ہولناکی 1990ء کی دہائی میں پوری طرح سامنے آئی۔ 1990ء کی دہائی میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی کشمکش عروج پر تھی۔ بے نظیر اقتدار میں آجاتی تھیں تو اُن کے نشے میں مبتلا لوگوں کو لگتا تھا اب نظام تبدیل ہوگیا ہے۔ میاں نوازشریف اقتدار میں آجاتے تھے تو اُن کے چاہنے والوں کو محسوس ہوتا تھا نظام بدل چکا ہے۔ چہروں کی سیاست کے نشے کے تناظر میں دیکھا جائے تو نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دراصل ’’سیاسی شراب خانوں‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ نشہ ہر صورت میں حرام ہے خواہ وہ شراب کا نشہ ہو یا چرس کا۔ طاقت کا نشہ ہو یا اَنا کا۔ علم کا نشہ ہو یا چہروں کی سیاست کا نشہ۔ نشہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ سیاسی چہروں کے نشے نے کروڑوں پاکستانیوں کو عقل و خرد سے محروم کیا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ 2013ء کے انتخابات میں ہم صبح سویرے بیکری سے ڈبل روٹی وغیرہ لینے نکلے تو ہمارے اپارٹمنٹ کے ایک صاحب جو خیر سے ’’پروفیسر‘‘ بھی تھے، سرِراہ مل گئے۔ ہم نے پوچھا ’’پروفیسر صاحب کدھر کا قصد ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’میں نے سوچا صبح ہی صبح ووٹ ڈال کر فارغ ہوجائوں‘‘۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے ووٹر ہیں، مگر ہم نے ازراہِ تفنن پوچھا ’’اور آپ ووٹ کس کو ڈال رہے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’ایم کیو ایم کو۔ ہم نے عرض کیا ’’کمال ہے، آپ جیسا پڑھا لکھا اور باشعور شخص بھی ایم کیو ایم کو ووٹ دے گا! کیا ایم کیو ایم دہشت گرد نہیں ہے؟ بھتہ خور نہیں ہے؟ کیا الطاف حسین ملک دشمن نہیں ہے؟ کیا ایم کیو ایم نے بوری بند لاشوں کا کلچر پیدا نہیں کیا؟‘‘ کہنے لگے ’’آپ کے سارے الزامات درست ہیں، مگر فاروقی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ’’ہم‘‘ ایم کیو ایم کو ووٹ نہیں دیں گے تو سندھی، پٹھان اور پنجابی ہمیں کھا جائیں گے۔‘‘ ہم نے کہا ’’آپ کی بات کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ لوگ تو ابھی مہاجروں کو کھائیں گے، مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم تو مہاجروں کو کھا چکے۔‘‘ کہنے لگے ’’آپ تو صحافی ہیں، آپ سے کون بحث کرے؟‘‘
کئی سال پہلے سندھ میں سیلاب آیا تو جماعت اسلامی نے اپنے سندھی بھائیوں کی بڑی خدمت کی۔ جماعت نے کئی مقامات پر دیہی سندھ کے لوگوں کو ایک ایک کمرے کے مکانات تک بناکر دیے۔ ہم ایسے مکانات کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے۔ ہم نے ایک سندھی بھائی سے پوچھا ’’کیا پیپلزپارٹی کے کسی وفاقی وزیر یا رہنما نے سیلاب کے دوران آپ کی مدد کی؟‘‘ کہنے لگے ’’نہیں‘‘۔ ہم نے کہا’’ پیپلزپارٹی کا کوئی صوبائی وزیر یارہنما آپ کی مدد کو آیا؟‘‘ کہنے لگے ’’نہیں‘‘۔ ہم نے پوچھا ’’پیپلزپارٹی کے کسی مقامی رہنما نے آپ کی مشکل میں آپ کا ساتھ دیا؟‘‘ کہنے لگے ’’نہیں‘‘۔ ہم نے پوچھا ’’پھر آپ کی مدد کس نے کی؟‘‘ کہنے لگے ’’جماعت اسلامی کے لوگوں نے ہمیں سیلاب سے نکالا، خیمہ دیا، ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ اب یہ مکان بناکر ہمیں دیا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’یہ سب تو ٹھیک ہے، مگر آپ آئندہ انتخاب میں ووٹ کسے دیں گے؟‘‘کہنے لگے ’’سائیں ووٹ تو ہم پیپلزپارٹی ہی کو دیںگے۔‘‘ میاں نوازشریف کی اسلام دشمنی کی ٹھوس اور ناقابلِ تردید شہادتیں موجود ہیں۔ ان کی ملک دشمنی بھی راز نہیں۔ انہوں نے کرپشن بھی بے پناہ کی ہے۔ مگر جس طرح مہاجروں کی بڑی تعداد الطاف حسین اور ایم کیو ایم، سندھیوں کی بڑی تعداد بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر تیار نہیں، اسی طرح پنجابیوں کی بڑی تعداد شریفوں کے کسی گناہ کو گناہ تسلیم کرکے ان کے بارے میں رائے بدلنے پر تیار نہیں۔ عمران خان کے چہرے کے نشے میں مبتلا کئی ’’نشئی افراد‘‘ سے ہماری بحث ہوچکی ہے، ان میں سے کوئی نشئی عمران خان کی درجنوں حماقتوں اور نااہلیوں کے باوجود ان کے بارے میں اپنی رائے سے رجوع کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے ہر سیاسی بحران کا تقاضا یہ نعرہ ہے: ’’صبح کو بدلو، شام کو بدلو، چہرے نہیں نظام کو بدلو‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام بدلے گا تو قیادت کا معیار بدلے گا۔ نظام بدلے گا تو ظالم کمزور ہوگا، مظلوم طاقت ور ہوگا۔ نظام بدلے گا تو ملک میں جرنیلوں، شریفوں، بھٹوز اور عمران خانوں کا انصاف نہیں ہوگا، ’’حقیقی عدل‘‘ ہوگا۔ نظام بدلے گا تو استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ نظام بدلے گا تو جمہوریت حقیقی جمہوریت اور سیاسی جماعتیں حقیقی سیاسی جماعتیں بنیں گی۔ نظام بدلے گا تو تعلیم عام ہوگی۔ نظام بدلے گا تو شعور عام ہوگا۔ نظام بدلے گا تو غریب بھی خوشحال ہوگا۔ نظام بدلے گا تو امریکہ، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی غلامی سے نجات ملے گی۔ نظام بدلے گا تو پاکستان اقبال اور قائداعظم کا پاکستان بنے گا۔ نظام نہیں بدلے گا تو ملک و قوم کا مقدر کبھی نہیں بدلے گا۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، اور پاکستان کی سیاست کو پہلے دن سے ’’نظریاتی‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مگر پاکستان کی سیاست لیاقت علی خان کے بعد سے آج تک ’’مفاداتی‘‘ ہے۔ ایک مسلم معاشرے میں نظریاتی سیاست کا امتیازی وصف اگر تقویٰ، علم اور اہلیت نہیں ہوگی تو پھر سیاست ایسے بحران کا شکار ہوگی کہ آدھا ملک ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور باقی ماندہ ملک میں کہیں ’’گریٹر پنجاب‘‘ کی ’’تھیوری‘‘ چل رہی ہوگی، کہیں ’’سندھو دیش‘‘ کا نعرہ لگ رہا ہوگا، کہیں ’’بلوچستان لبریشن آرمی‘‘ کام کررہی ہوگی، کہیں ’’جناح پور‘‘ کی کھچڑی پک رہی ہوگی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جب ایک دو حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو ’’ایک دو افراد‘‘ ناکام ہوتے ہیں، جب کئی حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو ’’کئی جماعتیں‘‘ ناکام ہوتی ہیں، لیکن جب ملک کی ہر حکومت ناکام ہوجائے تو ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہونے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی ہر حکومت ناکام حکومت ہے۔ حکومتوںکی ناکامیوں کی وجوہات مختلف ہیں مگر ’’ناکامی‘‘ ان کے درمیان ’’قدرِ مشترک‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیاست کو برتر اقدار اور برتر اصولوں سے ہم کنار کرنے کا تصور صرف اسلام ہی میں نہیں، دنیا کی اکثر مذہبی روایتوں اور فلسفیانہ نظاموں میں موجود ہے۔ جس طرح ہم عہدِ رسالت یا خلافتِ راشدہ کو آئیڈیل مانتے ہیں، اسی طرح ہندو ’’رام راج‘‘ کو ’’آئیڈیالائز‘‘ کرتے رہے ہیں۔ عیسائیوں کے نزدیک اُن کی تاریخ کا بہترین زمانہ وہ ہوگا جب حضرت عیسیٰؑ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور دنیا کی قیادت کریں گے۔ افلاطون تک نے کہا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو، یا حکمران کو فلسفی میں ڈھال دو۔ اسی لیے اقبال نے پوری قوت سے کہا ہے:۔

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اقبال کی فکر کا یہ پہلو اتنا غیر معمولی ہے کہ اس کے مظاہر کو ہم ہر طرف برپا دیکھتے ہیں۔ یورپ نے سیاست کو دین سے جدا کیا تو ہٹلر اور مسولینی پیدا کیے۔ روس کے اشتراکی انقلاب نے لینن اور اسٹالن جیسے چنگیز پیدا کیے۔ ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر امریکہ کو سب سے مضبوط جمہوریت کہہ کر اس پر دھمال ڈالتے ہیں، لیکن امریکہ کی ڈھائی سو سال پرانی جمہوریت اتنی ’’شاندار‘‘ ہے کہ وہ اپنے عروج کے زمانے میں ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ پیدا کررہی ہے۔ بعض پاکستانی بھارت کو گاندھی اور نہرو کا ہندوستان سمجھتے ہیں اور بھارت کی جمہوریت پر ان کی رال ٹپکتی ہے، مگر یہ گاندھی اور نہرو کا کیسا ورثہ اور بھارت کی یہ کیسی جمہوریت ہے جو مودی کو جنم دے رہی ہے اور اُسے پورا بھارت سر پر بٹھائے گھوم رہا ہے۔ ادھر ’’روشن خیال‘‘ اور ’’لبرل یورپ‘‘ کے اکثر ملکوں میں فاشسٹ رہنما مقبول ہورہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے ایک معنی یہ ہیں کہ امریکہ، یورپ اور بھارت میں بھی نظام کی نہیں چہروں کے نشے کی سیاست ہورہی ہے۔ اتفاق سے اگر مولانا فضل الرحمن کا مارچ یا دھرنا کامیاب ہوگیا تو بھی وہ چہروں کے نشے کی سیاست کو آگے بڑھائے گا، اور اگر مولانا کا مارچ اور دھرنا ناکام ہوگیا تو بھی چہروں کی سیاست کا نشہ مزید بڑھے گا۔ حالانکہ سیاست کے حوالے سے پاکستان کا اصل نعرہ یہ ہے ’’صبح کو بدلو، شام کو بدلو، چہرے نہیں نظام کو بدلو‘‘۔ اتفاق سے پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی نظریاتی سیاست کی علامت کی حیثیت سے موجود ہے۔ چنانچہ اسے نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کا پرچم بلند کرنا چاہیے۔ پاکستان میں چہروں کی تبدیلی کے نشے کی سیاست اپنا دائرہ مکمل کرچکی ہے اور اس کے خلاف ایک بہت قوی اور شاندار بیانیہ مرتب کرکے قوم کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ نظریاتی سیاست ’’ماضی کی سیاست‘‘ نہیں، یہ ’’حال‘‘ اور ’’مستقبل‘‘ کی بھی سیاست ہے۔ یہی سیاست جماعت اسلامی کی اصل سیاست ہے۔ اسی سیاست میں قوم، ملّت اور امت کی نجات ہے۔ جب تک پاکستان میں نظریاتی سیاست ہوئی اُس وقت تک ہمارے صوبائی، لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات ہماری زندگیوں پر غالب نہیں تھے۔ مگر نظریاتی سیاست کے خاتمے نے ہمیں ان تعصبات میں مبتلا کردیا ہے جو قیام پاکستان کے تصور کی نفی ہیں۔
چہروں اور خاندانوں کی سیاست کے ’’نشے‘‘ کا ایک پہلو یہ ہے کہ چہروں اور خاندانوں کے سیاست کا نشہ ’’ذاتیات‘‘ اور ’’سازش‘‘ کی سیاست تخلیق کرتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ چند روز پہلے جیل میں میاں نوازشریف کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ٹیسٹ ہوئے تو معلوم ہوا کہ میاں صاحب کے جسم میں پلیٹ لیٹس کی کمی ہوگئی ہے۔ چنانچہ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔ مگر میاں صاحب کی طبیعت کی خرابی پر اُن کے فرزند حسین نواز اور داماد کیپٹن(ر) صفدر نے ہولناک تبصرے کرڈالے۔ انہوں نے فرمایا کہ میاں صاحب کو جیل میں زہر دیا جارہا ہے۔ حالانکہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پلیٹ لیٹس تیز بخار اور بہت زیادہ دوائیں کھانے سے بھی کم ہوجاتے ہیں۔ اتفاق سے میاں صاحب کو کئی دن سے تیز بخار بھی تھا اور وہ مدتوں سے بے شمار دوائیں بھی کھا رہے ہیں۔ ذاتیات اور سازش کی سیاست کی دوسری مثال وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان ہے کہ بھارت پاکستان کے داخلی حالات خراب کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر خارجہ کو صرف بیان نہیں دینا چاہیے تھا، ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو انہیں اس ثبوت کو بھی سامنے لانا چاہیے تھا۔ ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ میاں صاحب بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہیں اور بھارت اس بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے جو پاکستان کے خلاف صف آراء ہے۔ چنانچہ بھارت واقعتاً پاکستان کے داخلی حالات میں ملوث ہوسکتا ہے یا ان سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مگر بھارت کے ملوث ہونے کی بات تو عام لوگوں کے لیے زیبا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ ٹھوس شواہد کے ساتھ بات کریں۔ بدقسمتی سے یہ دونوں واقعات بھی یہی بتارہے ہیں کہ اگر پاکستان کا حکمران طبقہ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ صرف چہروں کی تبدیلی کی سیاست کرے گی اور ملک کا نظام جوں کا توں رہے گا تو ملک کی وحدت اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے تاریخ انہیں کچلتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے اور انہیں حافظے سے نکال دیتی ہے۔

Leave a Reply