ہندوستان کا تاریخی احساسِ کمتری ، ہولناک تضادات

آج ہندوستان صرف سیاسی معنوں میں نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی معنوں میں بھی مغرب کا دُم چھلّا ہے

ہندوستان دنیا کے اُن مماک میں شامل ہے جو نہ صرف یہ کہ ’’احساسِ برتری‘‘ میں مبتلا ہیں بلکہ وہ اپنے احساسِ برتری کو ’’جتلاتے‘‘ بھی رہتے ہیں۔ مگر یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے اس احساسِ برتری اور اس کو جتلانے کے عمل کی جڑیں ایک گہرے تاریخی ’’احساسِ کمتری‘‘ میں پیوست ہیں۔ ہندوستان کا یہ احساسِ کمتری نہ صرف یہ کہ اُسے چین سے نہیں جینے دے رہا، بلکہ اس احساسِ کمتری نے گزشتہ 71 سال سے خطے کے چھوٹے ممالک کا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کا قصہ کیا ہے؟
احساسِ کمتری اور احساسِ برتری یا Inferiority Complex اور Superiority Complex جدید نفسیات کی دو معروف اصطلاحیں اور دو معروف تصورات ہیں۔ ان اصطلاحوں اور تصورات کا خالق سگمنڈ فرائیڈ کا چہیتا مگر باغی شاگرد الفرڈ ایڈلر ہے۔ ایڈلر کا خیال ہے کہ انسان کا احساسِ برتری دراصل اس کے احساسِ کمتری کا نتیجہ ہوتا ہے، اور ایڈلر کے مطابق ہر بچے میں احساسِ کمتری اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ماحول میں زیادہ ’’طاقت ور‘‘ اور ’’قابل بڑے‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ بچہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے وہ احساسِ کمتری کے ابتدائی یا Original احساس سے دوچار ہوتا جاتا ہے، چنانچہ اس میں طاقت یا Power اور اپنے وجود کے اعتراف یا Recognition کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر احساسِ کمتری ہر بچے میں بیماری یا Complex نہیں بنتا، یہ صرف اُن بچوں میں بیماری یا Complex بنتا ہے جو زندگی میں درپیش چیلنجوں کا جواب دے کر اپنے احساسِ کمتری یا محرومیوں کا ’’ازالہ‘‘ نہیں کرپاتے۔ اس تجزیے کا ہندوستان سے گہرا تعلق ہے۔
اقبال نے کہا ہے:

تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

بہت سے لوگ غلامی کو صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں، مگر اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی اتنا بڑا اور اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ وہ افراد کیا، قوموں کے ضمیر کو بدل دیتی ہے۔ جب کوئی قوم غلامی کو قبول کرلیتی ہے تو پھر اُس کی نظر میں اُس کا ’’خوب‘‘ بھی ’’ناخوب‘‘ ہوجاتا ہے، اور ’’آقا‘‘ کے ’’عیب‘‘ میں بھی اس کو ’’ہنر‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ اقبال کی یہ بات اپنی جگہ مکمل ہے، مگر غلامی سے پیدا ہونے والی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمیں جدید مغرب کے ایک اہم فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر سے رجوع کرنا چاہیے۔ سارتر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ جب اس کے ملک فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہوگیا تو سارتر کے بقول اُسے محسوس ہوا کہ اب زندگی کے سلسلے میں اس کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، اس لیے کہ اب سارتر کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری جرمنی کو کرنی تھی۔ سارتر ایک کمیٹڈ ادیب اور فلسفی تھا، مگر غلامی کے تجربے نے اُسے بھی انفرادی اور اجتماعی تقدیر کے سوال سے لاتعلق کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ قومیں اگر غلامی کو قبول کرلیں تو وہ اپنی ’’خودی‘‘ کو کھو دیتی ہیں اور بچوں کی طرح اپنے حال اور مستقبل سے بیگانہ ہوجاتی ہیں، اور ان میں اتنا گہرا احساسِ کمتری پیدا ہوجاتا ہے جو صدیوں تک ان پر بھوت کی طرح سوار رہتا ہے۔ ہندوستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا غلام رہا اور دو سو سال تک انگریزوں کا غلام رہا۔ اس غلامی کو ہندوئوں نے دل و جان سے قبول کیا ہوا تھا۔ آج ہندو خود کو بڑا بہادر، قوی اور خوددار ظاہر کرتے ہیں، مگر وہ بہادر، قوی اور خوددار ہوتے تو 12 سو سال تک مسلمانوں اور انگریزوں کے غلام تھوڑی رہتے۔ مسلمان ایک ہزار سال تک ہندوستان میں ایک چھوٹی سی اقلیت تھے، مگر ہندو اکثریت ایک ہزار سال تک ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکی۔ بلاشبہ ان برسوں کے ایک حصے میں ہندو اِدھر اُدھر چھوٹی موٹی بغاوتیں ضرور کرتے رہے، مگر یہ بغاوتیں کبھی طوفان نہ بن سکیں۔ انگریزوں کے خلاف بھی ہندوئوں نے کبھی بغاوت نہ کی۔ بلاشبہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں کہیں کہیں ہندوئوں نے بھی حصہ لیا، مگر 1857ء کی جنگ ِآزادی اصل میں مسلمانوں کی جنگِ آزادی تھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انگریزوں نے اس جنگِ آزادی کی سزا مسلمانوں کو دی، ہندوئوں کو نہیں۔ ہندوئوں کو تو انگریزوں نے سینے سے لگایا، اور ہندو خود بھی انگریزوں، اُن کی فکر اور تہذیب کے سب سے بڑے پرستار بن کر ابھرے، اور ہندوئوں میں کبھی مغرب کے خلاف بغاوت کرنے والے پیدا نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوئوں میں نہ کوئی اکبرالٰہ آبادی پیدا ہوا، نہ ہندوئوں میں کسی اقبال نے جنم لیا، اور نہ ہندوئوں میں کوئی مولانا مودودی جیسا مغرب مخالف مذہبی مفکر پیدا ہوا۔ ہندوئوں میں جتنے اہم لوگ پیدا ہوئے وہ کسی نہ کسی عنوان سے مغرب زدہ ہی تھے۔ ہندوئوں کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم کانگریس ایک انگریز کی تخلیق تھی۔ گاندھی اور ان کا چرخا ’’مقامی‘‘ نظر آتے ہیں، مگر گاندھی اور اُن کے چرخے کا کھیل 1948ء میں نتھورام گوڈسے نے تمام کردیا۔ گاندھی کے بعد نہرو نے ہندوستان کی قیادت کی، اور نہرو الف سے لے کر یے تک ’’جدید‘‘ تھے۔ نہرو کے بعد ہندوستان کی مغربیت یا جدیدیت بڑھتی ہی چلی گئی، اور آج ہندوستان صرف سیاسی معنوں میں نہیں بلکہ فکری اور تہذیبی معنوں میں بھی مغرب کا دُم چھلّا ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان 12 سو سال تک غلام رہا، چنانچہ اس کی اجتماعی روح، اجتماعی ذہن اور اجتماعی نفسیات میں ایسا احساسِ کمتری رچ بس گیا جو ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ہی ’’احساسِ برتری‘‘ میں ظاہر ہونا شروع ہوگیا۔
جو انسان روحانی، نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی طور پر صحت مند ہوتا ہے وہ کبھی منتقم مزاج اور سازشی نہیں ہوسکتا۔ البتہ احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ خواہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں، وہ سازشی بھی ہوتے ہیں اور منتقم مزاج بھی، اس کے ساتھ ساتھ اُن میں دوسروں کو اذیت دینے کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اتنا دم تو تھا نہیں کہ وہ قیام پاکستان کی تاریخی لہر کو روک سکتا، چانچہ اس نے مجبوراً پاکستان کو قبول کرلیا، مگر قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی اس نے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ گاندھی جی عدم تشدد یا اہنسا کے پجاری تھے، مگر ان کی زندگی میں ہی برصغیر میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہندوستان مسلمانوں کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوتا تو ہندوستان میں ایک بھی مسلم کُش فساد نہ ہوتا۔ پھر ہندوستان دل سے پاکستان کو قبول کرتا اور دونوں ملکوں کے درمیان بہترین تعلقات ہوتے۔ مگر جو ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکے وہ اقتدار اور اختیارات کے ہاتھ میں آتے ہی ایسے بن گئے جیسے انہیں کبھی کسی مذہب، کسی اخلاق اور کسی تہذیب نے چھوا بھی نہ ہو۔ اقتدار کے ملتے ہی ہندوئوں کی نفسیات پر صرف سازش، انتقام اور اذیت دینے کے جذبے کا غلبہ ہوگیا۔
مذہبیت، تہذیب اور احساسِ کمتری اور احساسِ برتری سے بے نیازی یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی مگر انہوں نے ہندوازم یا ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کی۔ مسلمان ہندوازم کو چھیڑتے تو ایک ہزار سال میں ہندوازم مسخ اور ختم ہوکر رہ جاتا۔ دوسری طرف ہندوئوں کے احساسِ کمتری کا یہ عالم ہے کہ وہ مسلمانوں کے ’’پرسنل لا‘‘ میں کھلی مداخلت کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہندو ریاست طے کرے گی کہ مسلمان اپنی بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں یا الگ الگ وقت میں تین بار طلاق کا لفظ استعمال کریں۔ ہندوئوں کا دبائو ہندوستان میں مسلم خواتین کے پردے کو ناممکن بنارہا ہے۔
بلاشبہ بھارت عرصے سے سپر پاور کی ’’ایکٹنگ‘‘ کررہا ہے، مگر اس سپرپاور کے احساسِ کمتری کا یہ عالم ہے کہ 8 لاکھ مربع کلومیٹر اور 22 کروڑ لوگوں کا پاکستان 32 لاکھ مربع کلومیٹر اور ایک ارب 30 کروڑ کے ہندوستان کی داخلی سیاست کو “Define” کررہا ہے۔ بھارت کے انتخابات میں پاکستان ایک بڑا ’’ایشو‘‘ ہوتا ہے۔ بھارت میں آئی ایس آئی کا اتنا ذکر ہوتا ہے کہ جیسے آئی ایس آئی پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی چلا رہی ہو۔ یہاں تک کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ بیان میں فرمایا ہے کہ بھارت کی اپوزیشن پاکستان کا ہتھیار بن رہی ہے (روزنامہ جنگ کراچی، 9 مارچ 2019ء)۔ دوسری جانب بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتیں بالاکوٹ پر حملے کے حوالے سے تقریباً وہی کچھ کہہ رہی ہیں جو پاکستان نے کہا، یعنی یہ کہ بالاکوٹ میں ایک کوّے اور چند درختوں کے سوا کسی چیز کا نقصان نہیں ہوا۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ بھارت میں پاکستان اس طرح زیربحث ہے جیسے پاکستان سپر پاور ہو۔ بھارت کا احساسِ برتری اگر حقیقی ہوتا تو پاکستان کبھی بھی بھارت میں ’’سپرپاور‘‘ کی طرح زیربحث نہیں آسکتا تھا۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ بھارت کا احساسِ برتری دراصل اس کے گہرے تاریخی احساسِ کمتری کا شاخسانہ ہے، اور بھارت دراصل اپنے احساسِ برتری کے ذریعے اپنے احساسِ کمتری کا ’’ازالہ‘‘ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تو اندرا گاندھی نے کہاکہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا اور ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا۔ سقوطِ ڈھاکہ مسلم تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے، اس لیے کہ اس واقعے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دونیم ہوگئی اور مسلمانوں کے 90 ہزار فوجیوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ چنانچہ اگر اندرا گاندھی خود کو سقوطِ ڈھاکہ تک محدود رکھتیں تو اُن کا کچھ بگڑ نہ جاتا۔ ان کی یہ کامیابی بھی چھوٹی کامیابی نہ تھی، مگر بھارت کا احساسِ کمتری عود کر آیا اور احساسِ برتری کا لباس زیب تن کرکے کہنے لگا کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی تو کیا اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے گا! یہ لیجیے یہ رہا جواب، ہم نے پاکستان توڑ دیا۔ لیکن کیا سقوطِ ڈھاکہ سے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ غلبے کا ’’ازالہ‘‘ ہوگیا؟ ایسا نہیں ہے۔ بھارت سقوطِ ڈھاکہ سے ’’مطمئن‘‘ ہوجاتا اور اس کے احساسِ کمتری کا واقعتاً ’’ازالہ‘‘ ہوگیا ہوتا تو وہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے کے کام سے باز آجاتا، مگر جیسا کہ ساری دنیا کو معلوم ہے بھارت سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک پاکستان کے خلاف متحرک ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کا احساسِ کمتری کتنا گہرا ہے۔
ساری دنیا کہتی ہے کہ ’’تفریح‘‘ صرف تفریح ہوتی ہے اور کھیل صرف کھیل ہوتا ہے، مگر بھارت کے احساسِ کمتری نے تفریح اور کھیل دونوں کو ’’سیاسی‘‘ بلکہ ’’نظریاتی‘‘ بنادیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو یاد نہیں ہوگا مگر ہمیں یاد ہے کہ کئی سال قبل راجیو گاندھی کی بیوہ اور راہول گاندھی کی والدہ سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف بھارت کو کسی فوجی کارروائی کی کیا ضرورت ہے، ہم نے اپنی فلموں کے ذریعے پہلے ہی پاکستان کو فتح کیا ہوا ہے۔ ہالی ووڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہالی ووڈ بھی امریکہ کا ایک ہتھیار ہے، مگر امریکہ کے کسی سیاست دان نے آج تک یہ نہیں کہاکہ ہم ہالی ووڈ کے ذریعے پوری دنیا کو فتح کیے ہوئے ہیں، مگر بھارت کا احساسِ کمتری ایسا ہے کہ بھارت کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ کی زبان پر یہ بات آکر رہی کہ بھارت اپنی فلموں کو بھی پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین واردات یہ ہے کہ بھارت کی کرکٹ ٹیم نے رانچی میں آسٹریلیا کے خلاف فوجی ٹوپیاں اوڑھ کر ون ڈے میچ کھیلا۔ یہ تو اچھا ہی ہوا کہ پلوامہ میں بھارتی فوج کی خواتین ہلاک نہ ہوئیں، ورنہ بھارت کی کرکٹ ٹیم کو فوجی ساڑھیاں پہن کر میچ کھیلنا پڑجاتا۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا، یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کرکٹ میں کوئی فوج نہیں ہوتی اور فوج میں کوئی کرکٹ نہیں ہوتی، لیکن چوںکہ بھارت پلوامہ کے بعد سے اب تک پاکستان کا مقابلہ نہیں کرپایا، اس لیے بھارت کے احساسِ کمتری نے بھارت کی کرکٹ ٹیم کو بھی فوج بناکر کھڑا کردیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بھارت نے آسٹریلیا کے خلاف پہلے دو ون ڈے جیتے ہوئے تھے، مگر جس میچ میں بھارت کی کرکٹ ٹیم نے بھارتی فوج کی ٹوپیاں اوڑھیں وہ میچ بھارت ہار گیا۔ مزید اتفاق یہ کہ اس میچ کو ہرانے میں آسٹریلیا کے پاکستانی نژاد کھلاڑی عثمان خواجہ نے سینچری بناکر اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹ میں عثمان خواجہ کو “Well Played” کہہ کر داد دی۔
ہندوستان میں اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی طاقت، اور اس کے مقابلے پر ہندوستان کے احساسِ کمتری کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کا صرف ایک عالم ایک ارب سے زیادہ ہندوئوں پر بھاری پڑگیا۔ یہاں ہمارا اشارہ ذاکر نائک کی طرف ہے۔ ذاکر نائک نہ سیاست دان ہیں، نہ جہادی ہیں، نہ دہشت گرد… وہ صرف تقابلِ ادیان کے طالب علم ہیں اور لاکھوں لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر خالصتاً علمی انداز میں مناظرہ کرتے ہیں۔ وہ تقریر کے لیے اگر خود ایک گھنٹہ لیتے ہیں تو اپنے کسی ہندو حریف کو بھی ایک گھنٹے تک تقریر کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ذاکر نائک اپنے مناظروں سے تمام ادیان پر اسلام کی فوقیت ثابت کردیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں اور ہندوئوں کی مقدس کتب کا سند کے ساتھ حوالہ دیتے ہیں۔ چھے ہزار سال پرانی تہذیب کے حامل ہندوستان کے پاس اگر کوئی عالم ہوتا تو وہ اُس عالم کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر نائک کو علم اور دلائل و براہین کی طاقت کے ذریعے شکست دے کر دکھاتا، مگر ایک ارب ہندوئوں کے ہندوستان کے پاس نہ ذاکر نائک کی سطح کا علم تھا، نہ دلائل تھے، نہ قوتِ گویائی تھی۔ چنانچہ بھارت نے کسی ثبوت کے بغیر ذاکر نائک پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام لگایا اور انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح کا کام صرف احساسِ کمتری میں مبتلا افراد یا اقوام کرتی ہیں۔
ساری جدید دنیا میں ہندوستان کے تشخص کا انحصار تین چیزوں پر ہے، یعنی سیکولرازم، جمہوریت اور بھارت کا نظام انصاف۔ بھارت آئینی اعتبار سے سیکولر ہے اور وہ ساری سیکولر دنیا میں خود کو یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ بھارت آپ ہی کے جیسا ہے۔ مگر بھارت کا سیکولرازم ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک حقیقی سیکولر معاشرے میں مذہب سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا، مگر بھارت میں مذہب سب سے اہم معاملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طرف بھارت کے لیے اسلام اور مذہبی اعتبار سے مسلمان دردِ سر ہیں، دوسری جانب ہندوازم بھارت میں سیاسی نعرہ بھی ہے، تہذیبی نعرہ بھی اور سماجی نعرہ بھی، یہاں تک کہ سائنسی نعرہ بھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں بھارت میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان میں ہزاروں سال پہلے جہاز اڑتے تھے اور پلاسٹک سرجری انجام پاتی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت کا قول سیکولرازم ہے، مگر عمل ہندوازم ہے۔ بھارت کا باطن سیکولر اور ظاہر مذہبی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کی شخصیت دو نیم ہے، یعنی بھارت ایک Split Personality ہے۔ اور Split Personality ایک بیمارPersonality ہوتی ہے۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، تاہم جمہوریت اپنی اصل میں شمولیتی یا Inclusive ہوتی ہے۔ مگر بھارت کی جمہوریت Inclusive نہیں Exclusive ہے۔ چنانچہ اس جمہوریت نے 25 کروڑ مسلمانوں کو اگل کر انہیں سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے دیوار سے لگایا ہوا ہے۔ بھارت کی جمہوریت کا ایک تضاد یہ ہے کہ اس پر جرائم پیشہ افراد غالب آتے جارہے ہیں۔ بھارت کے منتخب ایوانوں میں 20 سے 30 فیصد منتخب نمائندوں پر قتل، چوری، ڈاکے اور زنا کے مقدمات کا سایہ ہوتا ہے۔
بھارت کے نظام انصاف میں انصاف کی حالت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کی اعلیٰ عدالتوں میں بابری مسجد کا مقدمہ 1950ء سے لڑا جارہا ہے مگر آج تک اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ ابھی چند روز پیشتر بھارتی سپریم کورٹ نے ایک عجیب کام کیا، اُس نے بابری مسجد کے تنازعے کے حل کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی، اس کمیٹی کے دو اراکین ہندو اور ایک مسلمان ہے۔ ہندو اراکین میں ایک صاحب شری شری روی شنکر ہیں، یہ صاحب ان دنوں بھارت کی سب سے بڑی ’’روحانی شخصیت‘‘ ہیں۔ یہ ایک بار امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد ہوچکے ہیں اور انہیں بھارت کی پانچویں طاقت ور ترین شخصیت کہا جاتا ہے۔ کمیٹی کے دوسرے ہندو رکن ایک وکیل ہیں، اُن کا نام سری رام پنجو ہے۔ کمیٹی کے واحد مسلم رکن فقیر محمد کیف اللہ ہیں جو ایک ریٹائرڈ جج ہیں۔ دنیا بھر میں عدالتیں انصاف کے لیے ہوتی ہیں، اور عدالتیں انصاف اپنے فیصلے کے ذریعے کرتی ہیں، مگر بھارت کی اعلیٰ عدالت نے بابری مسجد کے سلسلے میں فیصلے کے ذریعے انصاف کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور ایک مصالحتی یا مفاہمتی کمیٹی بنادی ہے۔ مگر اس کمیٹی کی تشکیل میں یہ ناانصافی کی گئی ہے کہ اس میں دو ہندو اور صرف ایک مسلمان شامل کیا گیا ہے۔ اس کے معنی واضح ہیں، کمیٹی کو اگر اکثریتی فیصلہ کرنا پڑا تو دو ہندو ایک طرف اور ایک مسلمان دوسری طرف ہوگا، اور تین میں ’’اکثریت ‘‘ دو کو حاصل ہوتی ہے، ایک کو نہیں۔ کیا عدالت مصالحتی کمیٹی کے اراکین میں دو مسلمان شامل نہیں کرسکتی تھی؟ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شری شری روی شنکر میں ’’روحانیت‘‘ نام کو بھی نہیں ہے۔ وہ بابری مسجد کے سلسلے میں ایک انتہا پسند ہندو کی طرح سوچتے ہیں۔ وہ کچھ ماہ قبل اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ اگر بھارت کی عدالت نے بابری مسجد کے مقدمے میں فیصلہ مسلمانوں کے خلاف کیا تو بھارت کے مسلمان خود کو بھارت کے مرکزی دھارے سے کٹا ہوا محسوس کریں گے، اور اگر عدالت نے فیصلہ ہندوئوں کے خلاف دیا تو بھارت مسلمانوں کے لیے شام بن جائے گا، یعنی مسلمانوں کا بہت خون بہے گا۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت کی عدالت ہندوئوں کے خلاف فیصلہ انصاف کی بنیاد پر کرے گی تو بھارت میں مسلمانوں کا خون کیوں بہے گا؟ کیا ہندوئوں کے لیے انصاف صرف وہ ہوتا ہے جو ہندوئوں کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف ہو؟ شری شری روی شنکر کی روحانیت کا کیا عالم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ چند ماہ قبل بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا تھا تو شری شری روی شنکر نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔ ان تمام حقائق سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کا نظام انصاف اور بھارت کی عدالتیں کتنا بڑا دھوکا ہیں، اور بھارت کا نظامِ انصاف بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ کس قسم کا ’’انصاف‘‘ کررہا ہے؟ غور کیا جائے تو بھارت کے ’’انصاف‘‘ اور ’’نظامِ انصاف‘‘ سے بھی یہی آشکار ہوتا ہے کہ بھارت کا احساسِ برتری دراصل اس کے بدترین تاریخی احساسِ کمتری سے نمودار ہوا ہے۔ یہ احساسِ کمتری اتنا افسوس ناک اور شرمناک ہے کہ اس نے انصاف کو بھی ’’تماشا‘‘ بنادیا ہے۔
جو لوگ بھارت کے تاریخی احساسِ کمتری اور اس کے ہولناک تضاد کو صرف علمی و فکری مسئلہ سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ بھارت کے تاریخی احساسِ کمتری نے جنوبی ایشیا کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس بات کی گواہی بھارت کے اتحادی امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز تک نے دی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے بقول مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک پاک بھارت ایٹمی جنگ کا خطرہ موجود ہے۔ نیویارک ٹائمز کے بقول پلوامہ حملے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوئی اُسے کئی ملکوں نے کم کرانے میں اہم کردار ادا کیا، تاہم نیویارک ٹائمز کے بقول اگلی محاذ آرائی کی نوعیت تصور سے بھی باہر ہوگی (روزنامہ دنیا۔ 9 مارچ 2019ء)۔ تاریخی حقائق گواہ ہیں کہ بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان نے ایٹم بم بنایا۔ بھارت نے بم دھماکے کیے تو پاکستان نے بم دھماکے کیے۔ بھارت نے میزائل بنایا تو پاکستان نے میزائل سازی پر توجہ دی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان خطے کی صورتِ حال کو دھماکا خیز بنانے کا ذمے دار نہیں۔ چنانچہ خطے میں ایٹمی جنگ کی نوبت آئی تو اس کا ذمے دار بھی بھارت ہوگا۔ بدقسمتی سے ایٹمی جنگ بھی بھارت کے تاریخی احساسِ کمتری اور اس کے ہولناک تضادات سے نمودار ہوگی۔

Leave a Reply